
سارے اقدامات بجا لیکن عوام کو ریلیف کب ملے گا؟
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت نے بعض سرکاری اداروں کی نجکاری کے بعد اب70 ہزار سرکاری خالی آسامیاں اور117 ادارے ختم اور ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ روز کے اخبارات میں شائع رپورٹس کے مطابق وزارتوں اور ڈویژنوں میں گریڈ ایک تا سولہ کی70 ہزار خالی آسامیاں ختم کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے 117 اداروں کو ختم اور ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے اداروں کی تعداد441 سے کم کر کے 324 کی جا رہی ہے۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ ملازمین کے بنیادی پے سکیلز، تنخواہوں و مراعات کے بارے میں پے اینڈ پنشن کمیشن فروری2021ء میں رپورٹ پیش کرے گا۔اس کے علاوہ گزشتہ روز کے اخبارات میں نمایاں شہ سرخیوں میں چھپی دوسری اہم خبر یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے منحرف رہنماقائد جمعیت اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو پارٹی کی رجسٹریشن پر نوٹس دیں گے۔ ان رہنماؤں کے مطابق پارٹی کے دستور میں تبدیلی کیلئے دوتہائی اکثریت درکار ہے اور جنرل کونسل کی قرارداد کا پاس ہونا ضروری ہے اور اس بابت وہ مولانا سے پوچھیں گے کہ کس دستور کے تحت پارٹی کا نام تبدیل کیا۔ جہاں تک ملکی اداروں کی نجکاری اور اداروں کو ختم کرنے یا ضم کرنے کا سوال ہے تو حکومت، ظاہر ہے کہ ان اقدامات کا دفاع ہی کرے گی، ماہرین اقتصادیات و معاشیات کے نزدیک بھی جو نقصان کی بجائے فائدے پر منتج ہوں گے تاہم ملک کو درپیش مالی و معاشی چیلنجز خصوصاً ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی تشویش کا ہی شکار ہوگا، اس لئے ہم بارہا یہ گزارش اور استدعا کر چکے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات اور فیصلوں سے قبل قوم کو اعتماد میں لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ دوسرا مگر یکساں طور پر اہم سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے عوام کو ریلیف ملے گا بھی یا نہیں، اور اگر ملے گا تو کب، یا پھر حسب سابق و حسب ماضی یہ اقدامات بھی عوام کی بجائے حکومت اور مقتدر حلقوں کے مفاد کے پیش نظر ہی کئے جا رہے ہیں۔ ایسا ہم اس لئے بھی سوچنے یا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ایک طرف حکومت ملکی اثاثوں کو یکے بعد دیگرے گروی رکھ کر قرضوں پے قرضے لے رہی ہے، بیرون ملک قیمتی اثاثوں کو بھی منفعت بخش بنانے کی بجائے بند کیا جا رہا ہے، ملائیشیاء میں پی آئی اے طیارے کی ضبطگی اور براڈ شیٹ معاملے میں کروڑوں ڈالرز کے علاوہ ریکوڈک کا معاملہ بھی انتہائی تشویشناک ہے لیکن حکومت اس حوالے سے کسی طرح کے نتیجہ خیز اقدامات اٹھانے سے مکمل طور پر قاصر نظر آ رہی ہے، ایسے میں فوری توجہ کے حامل اس طرح کے معاملات کی بجائے اداروں کی نجکاری یا ان کے خاتمے جیسے فیصلوں سے سوالات تو ضرور اٹھیں گے اور جہاں تک جے یو آئی کے منحرف رہنماؤں کے دعوؤں کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رہنماء اول تو پارٹی سے بے دخل کئے جا چکے ہیں لہٰذا وہ کسی ایسی جماعت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کر سکتے جس کا وہ حصہ ہی نہیں ہیں اور بالفرض محال اگر انہیں یہ سوالات اٹھانے کا حق دے بھی دیا جائے تو بھی سوال یہی اٹھے گا کہ آخر کس کے اشارے پر یہ رہنما اب یہ سوالات اٹھا رہے ہیں، بہ الفاظ دیگر یہ رہنماء کس کی زبان بول رہے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ”کس“ یا ”کون“ سے آج نا صرف مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم ہی واقف نہیں بلکہ آج قوم کا بچہ بچہ اس حقیقت سے باخبر ہے۔