سیاست سیاست کھیلتے یہ ہم جا کہاں رہے ہیں؟

سیاست سیاست کھیلتے یہ ہم جا کہاں رہے ہیں؟

دنیا بھر میں کورونا کی وبائی صورتحال، اس وباء کے باعث اقوام کو درپیش اقتصادی و معاشی سمیت طرح طرح کے چیلنجز اور ان مشکلات کی وجہ سے دنیا کے سر پر تیسری عالمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ان خدشات کا اظہار صرف سنجیدہ و باخبر حلقوں کی کی جانب سے نہیں کیا جا رہا بلکہ نہایت اہم مناصب پر متمکن شخصیات بھی اس خدشے کا اظہار کر رہی ہیں۔ اسی طرح امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کا فوکس کورونا ویکسینیشن کی موثر مہمات کے ساتھ اس وباء پر قابو پانا اور جلد سے جلد نظام زندگی کو واپس بحال کرنے پر ہے لیکن بدقسمتی ملکِ عزیز کے حالات پر نظر دوڑانے سے پہلا تاثر یہی ملتا ے کہ اس دیس میں آباد انسانوں کی اکثریت خصوصاً یہاں کے صاحبان اختیار کو محولہ بالا خطرات میں سے کسی ایک کی بھی فکر نہیں، ذاتی یا گروہی مفادات کا تحفظ ہی سب کا نصب العین ہے اور اس مقصد کے لئے ہر ایک کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ جہالت، تعلیم و شعور کا فقدان اور اس کے ساتھ ساتھ پرائی جنگوں میں قوم کے وسائل جھونکنے کی روایت ہے۔

علاوہ ازیں حقائق کو قوم کی نظروں سے اوجھل رکھنے یا آدھا سچ قوم کے سامنے رکھنے کی پالیسی بھی ملک میں قانون و آئین کی بالادستی اور اس کے نتیجے میں ملک و قوم کی ممکنہ ترقی و خوشحالی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ اس حقیقت سے انکار اب ممکن نہیں کہ ”نئے پاکستان” کے قیام کی کوششیں عوام کی صفوں میں پائے جانے والے ”ایک نہیں دو پاکستان” کی سوچ یا تاثر کو مزید تقویت بخشنے کا باعث بنی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہر طرف اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا سا سماں ہے۔ ہم کیا پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اگر ایک طرف ملک میں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں، ملک کے کونے کونے میں لوگ یہاں تک کہ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی خود قانون کے رکھوالے اور قانون کے محاظ بھی قانون کو ہاتھ میں لیتے نظر آ رہے ہیں،

اس ملک میں عدالت عظمیٰ کو بخشا گیا نہ ہی اعلیٰ عدالتوں کو اور نہ ہی پارلیمان کو، سب پر چڑھائیاں کی گئیں، نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب تک ملک میں سب سے زیادہ تقدس و احترام کے حامل اداروں کے مسکن کی جانب بھی لانگ مارچ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، ملک کی موجودہ تصویر کو بیان کرنے کے لئے پوری ایک کتاب درکار ہے، ایک طرف یہ حالات ہیں تو دوسری طرف ملک میں جاری عدم استحکام کے خاتمے کے آثار دور دور تلک دکھائی نہیں دے رہے، اپوزیشن اور حکومت ہی باہم متصادم نہیں بلکہ سویلین و غیرسویلین اداروں کے درمیان کشمکش بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ نمایاں ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں مقتدر اداروں پر سیاست میں مداخلت کے الزامات اور جوابی الزامات اور وضاحت در وضاحت کا سلسلہ الگ سے جاری ہے، مگر یہ سوال کوئی بھی خود سے پوچھنے کے لئے تیار نہیں کہ سیاست، اقتدار، طاقت اور اختیار کے اس کھیل میں ہم کہاں جا پہنچے ہیں اور ہماری منزل کیا ہو گی، بہ الفاظ دیگر ہمارا انجام کیا ہو گا؟ خدانخواستہ ملک کی سیاسی و غیرسیاسی اشرافیہ و دیگر متعلقہ اداروں یا حلقوں نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لئے تو ہمیں ڈر ہے کہ حکیم الامت کی یہ پیشگوئی کہیں درست ثابت نہ ہو جائے اور ایسا نہ ہو کہ کل اقوام عالم کی داستانوں میں ہماری داستان تک بھی نہ رہے۔