تعلیمی اداروں کی بندش مسترد، حکومت ذمہ داریاں نبھائے

تعلیمی اداروں کی بندش مسترد، حکومت ذمہ داریاں نبھائے

وفاقی حکومت نے ملکِ عزیز میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز، اموات کی شرح میں اضافے خصوصاً تعلیمی اداروں میں کورونا کیسز کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافے کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے 24 دسمبر تک بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیر کو این سی او سی اور بعد ازاں بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں محولہ بالا اور اس طرح کے متعلقہ دیگر فیصلوں کے بعد وفاقی وزیر تعلیم نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے باعث گھروں میں سلسلہ تعیم جاری رکھا جائے گا (اور) جہاں آن لائن کی سہولت موجود نہیں وہاں ہوم بیسڈ ورک فراہم کیا جائے گا (جبکہ) ماہ دسمبر میں ہونے والے امتحانات 15 جنوری کے بعد منعقد کئے جائیں گے۔ وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق صوبے اپنی پالیسی بنا سکتے ہیں، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ چاہیں تو ہفتے میں ایک دن طلباء کو بھی بلا سکتی ہے جبکہ مارچ اپریل میں ہونے والے بورڈ امتحانات کو مئی اور جون میں لے جایا جائے۔ دوسری جانب عوامی نیشنل پارٹی نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم صوبائی محکمہ ہے اور وفاقی وزارت اور وزیر غیرآئینی ہے۔ اے این پی خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری اور سابق صوبائی وزیر تعلیم سردار حسین بابک نے اس فیصلے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے اور کہا ہے کہ بچے گھروں کے مقابلے میں سکولوں میں محفوظ ہیں (لیکن) غیرآئینی وفاقی وزیر نے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا غیرقانونی اعلان کیا ہے، حکومت کورونا سے نمٹنے کیلئے زمینی صورتحال کے مطابق انتظامات سے بھاگ رہی ہے اور عوام میں کورونا سے آگاہی کی بجائے خوف وہراس پیدا کر رہی ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کو جاری ایک بیان میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کو تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ سوچ سمجھ سے کرنا چاہئے تھا، طلبا کا قیمتی وقت ضائع کیا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ حکومت وباء سے بچنے کیلئے اقدامات اٹھائے، جلد ہی تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم صادر فرما دیتی ہے۔ اول تو اے این پی کے اس موقف کے ساتھ اختلاف ممکن نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی سبجیکٹ ہے لیکن اگر حکومت کے اس فیصلے کو مان بھی لیا جائے تو بھی بہت سارے سوالات ہیں جن کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جو بنیادی سوال بنتا ہے وہ یہی ہے کہ کیا ملک کے تمام حصوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے؟ دوسرا سوال، جو اس سے زیادہ نہیں تو کم اہم بھی نہیں، یہی ہے کہ کیا ملک کے تمام حصوں میں بجلی کی بلاتعطل ترسیل یا فراہمی پائی جاتی ہے کہ طلباء سکول نہ جانے کی صورت میں اپنا سلسلہ تعلیم جاری رکھ سکیں؟ زمینی حقائق کیا ہیں، کیا حکومت کو طلباء اور ان کے والدین کے مسائل کا ادراک ہے؟ اول تو ملک خصوصاً خیبر پختونخوا کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ کی سہولت یا تو سرے سے ہے ہی نہیں اوراگر کہیں پر یہ سہولت پائی بھی جاتی ہے تو انٹرنیٹ کی سپیڈ کا مسئلہ ہوتا ہے۔ دوسرے سردی کے اس موسم میں بھی ملک خصوصاً صوبے کے بیشتر علاقوں سے بجلی بیس بیس، بائیس بائیس گھنٹے غائب رہتی ہے تو ایسے میں طلباء کے لئے آن لائن کلاسز لینا محال ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ ہی ماہ قبل لاک ڈاؤن کے دوران یونیورسٹی اور کالج کے طلباء کو جس طرح کے مسائل کا سامنا تھا وہی مسائل اب کی بار بھی سر اٹھائیں گے۔ ایسے میں اگر تعلیمی ادارے بند کر دیئے جاتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ طلباء کی اکثریت کا سلسلہ تعلیم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ پچھلی مرتبہ عدالت کے واضح احکامات، حکومتی فیصلوں یہاں تک کہ ایک آرڈیننس