
تاریخی فیصلہ اور جمہوریت کی جیت؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیٹ انتخابات کے طریقہ کار سے متعلق فیصلے کو جہاں اپوزیشن خوش آئند اور جمہوریت کی جیت قرار دے رہی ہے وہاں حکومت نے بھی اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ پیر کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے چار ایک کی اکثریت سے رائے دی اور ریفرنس کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے زریعے ہی ہوں گے (کیونکہ) بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں۔ اپنے مختصر فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے (بھی) شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ فاضل بنچ نے یہ حکم بھی دیا کہ کرپٹ پریکٹس کی روک تھام کے لئے اقدامات کئے جائیں، ریفرنس غیرقانونی ہے (جسے) واپس بھجوایا جاتا ہے (جبکہ) تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اٹارنی جنرل سمیت وفاقی وزراء نے بھی خیرمقدم کیا ہے اور اسے تاریخی اور حکومتی موقف کے موافق فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت جو چاہتی تھی وہ اسے مل گیا ہے، ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے ہی پی ٹی آئی کا موقف ہے، بیلٹ پیپرز کی شناخت سے ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزراء کے مطابق ووٹ ہمیشہ خفیہ نہیں رہ سکتا اور یہ کہ صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم اور ن لیگ کے مرکزی رہنماء شاہد خاقان عباسی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان سمیت دیگر اپوزیشن قیادت نے بھی اس پیشرفت کو جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے جن کا کہنا تھا کہ یہ تاریخی فیصلہ جمہوریت کی جیت ہے (اور جس کے اجراء کے ساتھ ہی) صدارتی آرڈیننس خود تحلیل ہو گیا ہے جس کی اب کوئی حیثیت نہیں۔ اسفندیار ولی خان کا اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ حکومتی بدنیتی ظاہر ہو چکی، حکومت اوپن بیلٹ چاہتی تو اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی، (اب) غیرسیاسی لوگوں کو ٹکٹ دے کر حکمران جماعت کو پچھتانا پڑے گا کیونکہ سینیٹ کے انتخابات پی ٹی آئی کے لئے سرپرائز ہوں گے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی رہنماء شیری رحمان نے حکومت کو یہ طعنہ دیا کہ ملک آرڈیننس کی فیکٹری سے نہیں پارلیمان سے چلے گا (جسے موجودہ حکمرانوں نے عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے)۔ اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تو صدر مملکت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا ہے اور استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب حکومت کو، جیسا کہ اس کے وزراء کہہ بھی رہے ہیں، یہ احساس تھا کہ شفاف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے تو پھر صدارتی آرڈیننس کا اجراء اور اس کے ساتھ ہی اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا، کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار اس کی مرضی و منشاء کے مطابق تبدیل ہو نا ہو امن و امان (اچکزئی کی شہادت)، براڈ شیٹ و فارن فنڈنگ سمیت متعدد سکینڈلز اور سب سے بڑھ کر معاشی مسائل و چیلنجز سے تو عوام کی توجہ ضرور ہٹ جائے گی اور شاید ہی نہیں یقیناً حکومت کو اس میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اوپن بیلٹ ہو یا بیلٹ پیپر کی شناخت، دونوں صورتوں میں حکومت رائے دہندگان پر اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے جسکے پیش نظر کیا یہ انتخابات صاف، شفاف اور آزادانہ کہلائے جا سکیں گے؟ جہاں تک ووٹوں کی خرید و فروخت کا تعلق ہے تو دو ہزار اٹھارہ میں ووٹ بیچنے، خریدنے اور اس خرید و فروخت میں سہولت فراہم کرنیوالے سبھی حکمران جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے‘ اب کی بار اس کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ حکمران جماعت کے نمائندے ”برائے فروخت“ نہیں ہوگے‘ اور جہاں تک اپوزیشن کی اس رائے کا تعلق ہے کہ ملک آرڈیننس نہیں پارلیمان کے ذریعے چلایا جاتا ہے تو بصد احترام ان سے بھی یہ سوال ضرور کیا جا سکتا ہے کہ پارلیمان کو کون چلا رہا ہے، کیا پارلیمان میں بیٹھے نمائندے حقیقی معنوں میں عوام اور ملک کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ اس بارے ملک کی ساری جماعتوں کو سوچنا چاہئے۔